میں کھمبی کاشت کرنا چاہتی ہوں۔ اس سلسلے میں معلومات درکار ہیں۔ اسے اگانے کے لیے کتنی زمین درکار ہے اور اس کے فائدے کیا ہیں۔ (شمائلہ،لاہور)
برسات کے موسم میں جگہ جگہ خودبخود کھمبی(مشروم) اگ جاتی ہے۔ یہ پرانے دروازوں کے نیچے گلی سڑی لکڑی، کیاریوں میں نظر آتی ہیں۔ چھتری کے نیچے دھاریاں ہوتی ہیں۔ ان کو Gills کہتے ہیں۔ ان کے اندر کالے کالے دانے یا سپورز ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد لاکھوں اربوں تک ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا میں کھمبی کاشت کرنے کا رحجان بڑھتا جارہا ہے۔ ان سپورز کو پیک کرکے فروخت کیا جاتا ہے۔ اسے سبزی میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں حیاتین کا قدرتی خزانہ موجود ہے۔ مزے کی بات یہ کہ درختوں پر جہاں جگہ ملے آپ اسے اُگا سکتی ہیں۔ چین کے لوگ درخت کے تنے پر کھمبی اُگاتے ہیں۔ ان کے لیے خاص طور پر جگہ اور زمین کی ضرورت نہیں۔ آپ ان کو ٹوٹی پھوٹی ٹرے۔ برتنوں اور حد یہ کہ چائے کی پیالی میں بھی لگاسکتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ کہ آپ ان کو پولی تھین کے لفافوں میں اگاسکتی ہیں۔ بیکار ٹرے میں چاول کی پرالی، بھوسہ کی تہہ لگا کر پانی سے تر کردیجئے۔ اس میں سپورز پھیلا دیجئے۔ ایک خاص درجہ حرارت میں اس ٹرے کو رکھ دیجئے۔ چند دنوں میں کھمبیاں پھوٹ آئیں گی اور پھر خوبصورت چھتریوں سے آپ کی ٹرے بھر جائے گی۔ آپ اپنی فصل کو چھری سے کاٹ کر دھوکر حسب مرضی پکا سکتی ہیں۔مشروم کو آپ تمام سال کاشت کرسکتی ہیں۔ سفید رنگ کی کھمبی لذیز ہوتی ہے اسے زمین کی چیچک بھی کہا جاتا ہے۔ عرب میں لوگ اسے نبات الرعد یعنی آسمانی بجلی کی سبزی کہتے ہیں کیونکہ یہ بارش کے بعد نظر آتی ہے۔
یورپ میں مشروم کے کھانے لذت اور غذائیت کے اعتبار سے مشہور ہیں۔ چینی کھانوں میں مشروم کے کھانے لوگوں کو پسند آتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں